1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہبل کا متبادل جیمز ویب تنازعے کی زد میں

26 دسمبر 2021

انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور طاقتور خلائی دوربین پچیس دسمبر کو زمین کے مدار میں روانہ کر دی گئی لیکن ہبل کا نعم البدل قرار دی والی اس کرشماتی ٹیلی اسکوپ کے نام پر شروع ہونے والا تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔

https://p.dw.com/p/44oAH
Still DW Beitrag James Webb telescope ready for launch
تصویر: Cornelia Borrmann/DW

امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ وہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ (جے ڈبلیو ایس ٹی) کا نام تبدل نہیں کرے گا۔ الزام ہے کہ ناسا سے وابستہ جس ماہر فلکیات پر اس دیو ہیکل خلائی دوربین کا نام رکھا گیا ہے، وہ ہم جنس پسندوں کے خلاف تھا۔

ہبل کو تبدیل کرنے والی اس شاندار اور عظیم الشان ٹیلی سکوپ کو کائنات میں چھپے رازوں کو افشا کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ ان ستاروں اور اجزاء کے حوالے سے بھی رسرچ میں مدد دے گی، جو ہبل نامی خلائی دور بین نہیں کر سکی۔

سن انیس سو نوے میں خلا میں روانہ کی جانے والی ہبل ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ہی سائنس دانوں کو علم ہوا کہ کائنات کتنی پرانی ہے، یہ ممکنہ طور پر کیسے وجود میں آئی، بلیک ہولز کی نشاندہی ہوئی اور ایسی کہکشاؤں کا علم ہوا، جو اس سے پہلے کسی کئے ذہن میں جنہیں تھیں۔

ehemaliger NASA-Direktor James E. Webb
جیمز ویب (مائیکرو فون کے سامنے) امریکی خلائی ادارے کے سربراہ بننے سے قبل امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھےتصویر: NASA via CNP/picture alliance

اب اندازہ لگا لیجیے کے ماہرین جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو اگر ہبل سے بڑی، زیادہ حساس اور زیادہ ٹیکنالوجی والی خلائی دور بین قرار دے رہیں تو یہ کیا کیا دریافتیں ممکن بنا سکے گی۔

البتہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس عظیم خلائی دوربین کا نام ایک ایسی متنازعہ شخصیت پر رکھنا، جو نہ صرف ہم جنس پسندوں کے خلاف تھا بلکہ جس نے مبینہ طور پر اپنے دور میں مختلف جنسی میلانات و رجحانات رکھنے والے افراد کو اپنے تعصب کا نشانہ بنایا، دراصل پیغام دیتا کہ ناسا ایسے رویوں کی تائید کر رہا ہے۔

جیمز ویب کون تھے؟

جیمز ویب نے سن انیس سو اکسٹھ تا انیس سو ارسٹھ امریکی خلائی ادارے ناسا کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس سے قبل وہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھے۔

یہ دور نہ صرف سائنسی اور خلائی ترقی کی حوالے سے اہم تھا بلکہ سرد جنگ میں سابق سوویت یونین کے مقابلے میں امریکا نے عالمی سطح پر خود کو اعلی و برتر بھی منوانا تھا۔ یہ وہی دور تھا، جب امریکا چاند پر جانے کی اولین پرواز بھرنے کی تیاری میں تھا۔

جیمز ویب نہ صرف اپنی سائنسی قابلیتوں کی وجہ سے مشہور ہیں بلکہ ان کی سیاسی بصیرت نے بھی امریکی خلائی مشن کو ایک نئی جہت فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

جیمز ویب کی انہی خدمات کے عوض سن دو ہزار دو میں اس وقت کے وقت ناسا کے سربراہ شین او کوفی نے فیصلہ کیا کہ نیکسٹ جنریشن سپیس ٹیلی اسکوپ کا نام بدل کر جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ رکھ  جائے گا۔ اس انقلابی ٹیلی اسکوپ کی تیاری کا عمل ایک طویل عرصے سے جاری تھا۔

الزامات اور جوابات

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ جیمز ویب نہ صرف ہم جسن پسندوں خلاف تھے بلکہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور بعدازاں ناسا میں اہم عہدوں پر تعینات رہنے کے دوران انہوں نے اس کمیونٹی کی حوصلہ شکنی کی اور انہیں سائیڈ لائن کر دیا۔

 یہ الزام بھی ہے کہ جیمز ویب کی اس معتصبابہ رویے کی وجہ سے تب بالخصوص ناسا میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کا تنہا کرنے کی کوشش کی گئی اور مختلف جنسی میلانات و رجحانات کے حامل افراد سے مواقع چھین لیے گئے۔

دوسری طرف جیمز ویب کے دفاع میں بھی ایک حلقہ فعال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیمز ویب کے دور میں ناسا میں نسل پرستی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے گئے اور افریقی نژاد امریکی شہریوں کو اس ادارے میں خوش آمدید کہا گیا۔

جیمز ویب کے دفاع میں ان کی صنفی امتیاز کے خلاف آواز اور کوششوں کو بھی سراہا جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی کہا ہے کہ ان الزامات کے بعد مکمل انکوائری کی گئی تھی اور معلوم ہوا تھا کہ جیمز ویب پر عائد کردہ الزامات ثابت نہیں ہو سکے تھے۔ 

ع ب، ع ت (خبر رساں ادارے)